تفسير ابن كثير



سورۃ الواقعة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ[63] أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ[64] لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ[65] إِنَّا لَمُغْرَمُونَ[66] بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ[67] أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ[68] أَأَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ[69] لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ[70] أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ[71] أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ[72] نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَةً وَمَتَاعًا لِلْمُقْوِينَ[73] فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ[74]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر کیا تم نے دیکھا جو کچھ تم بوتے ہو؟ [63] کیا تم اسے اگاتے ہو، یا ہم ہی اگانے والے ہیں؟ [64] اگر ہم چاہیں تو ضرور اسے ریزہ ریزہ کر دیں، پھر تم تعجب سے باتیں بناتے رہ جاؤ۔ [65] کہ بے شک ہم تو تاوان ڈال دیے گئے ہیں۔ [66] بلکہ ہم بے نصیب ہیں۔ [67] پھر کیا تم نے دیکھا وہ پانی جو تم پیتے ہو؟ [68] کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے، یا ہم ہی اتارنے والے ہیں؟ [69] اگر ہم چاہیں تو اسے سخت نمکین بنادیں، پھر تم شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟ [70] پھر کیا تم نے دیکھی وہ آگ جو تم سلگاتے ہو؟ [71] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا، یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں؟ [72] ہم نے ہی اسے مسافروں کے لیے ایک نصیحت اور فائدے کی چیز بنایا ہے۔ [73] سو تو اپنے بہت عظمت والے رب کے نام کی تسبیح کر۔ [74]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اچھا پھر یہ بھی بتلاؤ کہ تم جو کچھ بوتے ہو [63] اسے تم ہی اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں [64] اگر ہم چاہیں تواسے ریزه ریزه کر ڈالیں اور تم حیرت کے ساتھ باتیں بناتے ہی ره جاؤ [65] کہ ہم پر تو تاوان ہی پڑ گیا [66] بلکہ ہم بالکل محروم ہی ره گئے [67] اچھا یہ بتاؤ کہ جس پانی کو تم پیتے ہو [68] اسے بادلوں سے بھی تم ہی اتارتے ہو یا ہم برساتے ہیں؟ [69] اگر ہماری منشا ہو تو ہم اسے کڑوا زہر کردیں پھر تم ہماری شکرگزاری کیوں نہیں کرتے؟ [70] اچھا ذرا یہ بھی بتاؤ کہ جو آگ تم سلگاتے ہو [71] اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم اس کے پیدا کرنے والے ہیں؟ [72] ہم نے اسے سبب نصیحت اور مسافروں کے فائدے کی چیز بنایا ہے [73] پس اپنے بہت بڑے رب کے نام کی تسبیح کیا کرو [74]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بھلا دیکھو تو کہ جو کچھ تم بوتے ہو [63] تو کیا تم اسے اُگاتے ہو یا ہم اُگاتے ہیں؟ [64] اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کردیں اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ [65] (کہ ہائے) ہم تو مفت تاوان میں پھنس گئے [66] بلکہ ہم ہیں ہی بےنصیب [67] بھلا دیکھو تو کہ جو پانی تم پیتے ہو [68] کیا تم نے اس کو بادل سے نازل کیا ہے یا ہم نازل کرتے ہیں؟ [69] اگر ہم چاہیں تو ہم اسے کھاری کردیں پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے؟ [70] بھلا دیکھو تو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو [71] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں؟ [72] ہم نے اسے یاد دلانے اور مسافروں کے برتنے کو بنایا ہے [73] تو تم اپنے پروردگار بزرگ کے نام کی تسبیح کرو [74]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 63، 64، 65، 66، 67، 68، 69، 70، 71، 72، 73، 74،

آگ اور پانی کا خالق کون؟ ٭٭

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ تم جو کھیتیاں بوتے ہو، زمین کھود کر بیج ڈالتے ہو، پھر ان بیجوں کو اگانا بھی کیا تمہارے بس میں ہے؟ نہیں نہیں بلکہ انہیں اگانا، انہیں پھل پھول دینا ہمارا کام ہے۔

ابن جریر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «ذَرْعَتُ» نہ کہا کرو بلکہ «حَرَثْتُ» کہا کرو یعنی یوں کہو میں نے بویا یوں نہ کہو کہ میں نے اگایا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنا کر پھر اسی آیت کی تلاوت کی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:33492] ‏‏‏‏

امام حجر مدری رحمہ اللہ ان آیتوں کے ایسے سوال کے موقعوں کو جب پڑھتے تو کہتے «بَلْ اَنْتَ یَا رَبَّی» ہم نے نہیں بلکہ اے ہمارے رب تو نے ہی۔

پھر فرماتا ہے کہ پیدا کرنے کے بعد بھی ہماری مہربانی ہے کہ ہم اسے بڑھائیں اور پکائیں ورنہ ہمیں قدرت ہے کہ سکھا دیں اور مضبوط نہ ہونے دیں برباد کر دیں اور بے نشان دنیا بنا دیں۔ اور تم ہاتھ ملتے اور باتیں بناتے ہی رہ جاؤ۔ کہ ہائے ہم پر آفت آ گئی، ہائے ہماری تو اصل بھی ماری گئی، بڑا نقصان ہو گیا، نفع ایک طرف پونجی بھی غارت ہو گئی، غم و رنج سے نہ جانیں کیا کیا بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگ جاؤ۔ کبھی کہو کاش کہ اب کی مرتبہ بوتے ہی نہیں کاش کہ یوں کرتے ووں کرتے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ مطلب ہو کہ اس وقت تم اپنے گناہوں پر نادم ہو جاؤ «تَفَكَّه» کا لفظ اپنے میں دونوں معنی رکھتا ہے نفع کے اور غم کے۔

«مُزْن» بادل کو کہتے ہیں۔ پھر اپنی پانی جیسی اعلیٰ نعمت کا ذکر کرتا ہے کہ دیکھو اس کا برسانا بھی میرے قبضہ میں ہے کوئی ہے جو اس بادل سے اتار لائے؟ اور جب اتر آیا پھر بھی اس میں مٹھاس، کڑواہٹ پیدا کرنے پر مجھے قدرت ہے۔ یہ میٹھا پانی بیٹھے بٹھائے میں تمہیں دوں جس سے تم نہاؤ، دھوؤ، کپڑے صاف کرو، کھیتیوں اور باغوں کو سیراب کرو، جانوروں کو پلاؤ پھر کیا تمہیں یہی چاہیئے کہ میرا شکر بھی ادا نہ کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی پی کر فرمایا کرتے «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي سَقَانَا عَذْبًا فُرَاتًا بِرَحْمَتِهِ، وَلَمْ يَجْعَلْهُ مِلْحًا أُجَاجًا بِذُنُوبِنَا» یعنی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں میٹھا اور عمدہ پانی اپنی رحمت سے لایا اور ہمارے گناہوں کے باعث اسے کھاری اور کڑوا نہ بنا دیا۔

عرب میں دو درخت ہوتے ہیں مرخ اور عفار ان کی سبز شاخیں جب ایک دوسری سے رگڑی جائیں تو آگ نکلتی ہے اس نعمت کو یاد دلا کر فرماتا ہے کہ یہ آگ جس سے تم پکاتے رہتے ہو اور سینکڑوں فائدے حاصل کر رہے ہو بتاؤ کہ اصل یعنی درخت اس کے پیدا کرنے والے تم ہو یا میں؟ اس آگ کو ہم نے تذکرہ بنایا ہے یعنی اسے دیکھ کر جہنم کی آگ کو یاد کرو اور اس سے بچنے کی راہ لو۔

قتادہ رحمہ اللہ کی ایک مرسل حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری یہ دنیا کی آگ دوزخ کی آگ کا سترواں حصہ ہے، لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! یہی بہت کچھ ہے آپ نے فرمایا: ہاں پھر یہ سترواں حصہ بھی دو مرتبہ پانی سے بجھایا گیا ہے، اب یہ اس قابل ہوا کہ تم اس سے نفع اٹھا سکو اور اس کے قریب جا سکو۔‏‏‏‏ یہ مرسل حدیث مسند میں مروی ہے اور باکل صحیح ہے۔ [مسند احمد244/2:صحیح] ‏‏‏‏

«مُقْوِينَ» مراد مسافر ہیں، بعض نے کہا ہے جنگل میں رہنے سہنے والے لوگ مراد ہیں۔ بعض نے کہا ہے ہر بھوکا مراد ہے۔ غرض دراصل ہر وہ شخص مراد ہے جسے آگ کی ضرورت ہو اور وہ اس سے فائدہ حاصل کرنے کا محتاج ہو، ہر امیر، فقیر، شہری، دیہاتی، مسافر، مقیم کو اس کی حاجت ہوتی ہے، پکانے کے لیے، تاپنے کیلئے، روشنی کیلئے وغیرہ۔ پھر اللہ کی کریمی کو دیکھئے کہ پتھروں میں لوہے میں اس نے اسے رکھ دیا تاکہ مسافر اپنے ساتھ لے جا سکے اور ضرورت کے وقت اپنا کام نکال سکے۔

ابوداؤد وغیرہ میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزوں میں تمام مسلمانوں کا برابر کا حصہ ہے آگ گھاس اور پانی۔‏‏‏‏ [سنن ابوداود:3477،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

ابن ماجہ میں ہے یہ تینوں چیزیں روکنے کا کسی کو حق نہیں۔ [سنن ابن ماجہ:2473،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ ایک روایت میں ان کی قیمت کا ذکر بھی ہے۔ لیکن اس کی سند ضعیف ہے [سنن ابن ماجہ:2472،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
9237

پھر فرماتا ہے تم سب کو چاہیئے کہ اس بہت بڑی قدرتوں کے مالک اللہ کی ہر وقت پاکیزگی بیان کرتے رہو جس نے آگ جیسی جلا دینے والی چیز کو تمہارے لیے نفع دینے والی بنا دیا۔ جس نے پانی کو کھاری اور کڑوا نہ کر دیا کہ تم پیاس کے مارے تکلیف اٹھاؤ بلکہ اسے میٹھا صاف شفاف اور مزیدار بنایا، دنیا میں رب کی ان نعمتوں سے فائدے اٹھاؤ اور اس کا شکر بجا لاؤ تو پھر آخرت میں بھی فائدے ہی فائدے ہیں۔ دنیا میں یہ آگ اس نے تمہارے فائدہ کے لیے بنائی ہے اور ساتھ ہی اس لیے کہ آخرت کی آگ کا بھی اندازہ تم کر سکو اور اس سے بچنے کے لیے اللہ کے فرمانبردار بن جاؤ۔
9238



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.